EN हिंदी
جو آئینے سے تیری جلوہ سامانی نہیں جاتی | شیح شیری
jo aaine se teri jalwa-samani nahin jati

غزل

جو آئینے سے تیری جلوہ سامانی نہیں جاتی

انیس احمد انیس

;

جو آئینے سے تیری جلوہ سامانی نہیں جاتی
کسی بھی دیکھنے والے کی حیرانی نہیں جاتی

کبھی اک بار ہولے سے پکارا تھا مجھے تم نے
کسی کی مجھ سے اب آواز پہچانی نہیں جاتی

بھری محفل میں مجھ سے پھیر لی تھیں بے سبب نظریں
وہ دن اور آج تک ان کی پشیمانی نہیں جاتی

پسے جاتے ہیں دل ہر گام پہ شور قیامت سے
خرام ناز تیری فتنہ سامانی نہیں جاتی

گوارا ہی نہ تھی جن کو جدائی میری دم بھر کی
انہیں سے آج میری شکل پہچانی نہیں جاتی

وہ میرے ہاتھ کا شوخی سے جانا ان کے دامن تک
وہ ان کا ناز سے کہنا کہ نادانی نہیں جاتی

گریباں اہل وحشت کے سیا کرتا تھا ہوش اک دن
اور اب مجھ سے ہی میری چاک دامانی نہیں جاتی