فراق یار میں کچھ کہئے سمجھایا نہیں جاتا
دل وحشی کسی صورت سے بہلایا نہیں جاتا
ہمیں نے چن لئے پھولوں کے بدلے خار دامن میں
فقط گلچیں کے سر الزام ٹھہرایا نہیں جاتا
سر بازار رسوا ہو گئے کیا ہم نہ کہتے تھے
کسی سودائی کے منہ اس قدر آیا نہیں جاتا
گریباں تھام لیں گے خار تو مشکل بہت ہوگی
گلابوں کی روش پر اتنا اٹھلایا نہیں جاتا
مہک جائے گی میری خامشی بھی بوئے گل ہو کر
ندائے حق کو قید و بند میں لایا نہیں جاتا
ادھر وہ عہد و پیمان وفا کی بات کرتے ہیں
ادھر مشق ستم بھی ترک فرمایا نہیں جاتا
انیسؔ اٹھو نئی فکروں سے راہیں ضو فشاں کر لو
مآل لغزش ماضی پہ پچھتایا نہیں جاتا
غزل
فراق یار میں کچھ کہئے سمجھایا نہیں جاتا
انیس احمد انیس