EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی

امجد اسلام امجد




کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

امجد اسلام امجد




سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے

امجد اسلام امجد




سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی

امجد اسلام امجد




سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں

امجد اسلام امجد




اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے

امجد اسلام امجد




اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے

امجد اسلام امجد