EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیسے کیسے بنا دیئے چہرے
اپنی بے چہرگی بناتے ہوئے

عمار اقبال




خود ہی جانے لگے تھے اور خود ہی
راستہ روک کر کھڑے ہوئے ہیں

عمار اقبال




میں آئینوں کو دیکھے جا رہا تھا
اب ان سے بات بھی کرنے لگا ہوں

عمار اقبال




میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں

عمار اقبال




میں نے تصویر پھینک دی ہے مگر
کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے

عمار اقبال




اس نے ناسور کر لیا ہوگا
زخم کو شاعری بناتے ہوئے

عمار اقبال




آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا
کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا

آنند نرائن ملا