EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

عہد کے بعد لئے بوسے دہن کے اتنے
کہ لب زود پشیماں کو مکرنے نہ دیا

امیر اللہ تسلیم




بس کہ تھی رونے کی عادت وصل میں بھی یار سے
کہہ کے اپنا آپ حال آرزو رونے لگا

امیر اللہ تسلیم




داستان شوق دل ایسی نہیں تھی مختصر
جی لگا کر تم اگر سنتے میں کہتا اور بھی

امیر اللہ تسلیم




دل دھڑکتا ہے شب غم میں کہیں ایسا نہ ہو
مرگ بھی بن کر مزاج یار ترسائے مجھے

امیر اللہ تسلیم




دل لگی میں حسرت دل کچھ نکل جاتی تو ہے
بوسے لے لیتے ہیں ہم دو چار ہنستے بولتے

امیر اللہ تسلیم




دماغ دے جو خدا گلشن محبت میں
ہر ایک گل سے ترے پیرہن کی بو آئے

امیر اللہ تسلیم




فکر ہے شوق کمر عشق دہاں پیدا کروں
چاہتا ہوں ایک دل میں دو مکاں پیدا کروں

امیر اللہ تسلیم