اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے
تیرا غم اس فشار شب و روز میں
ہونے دیتا نہیں بے سہارا مجھے
ہر ستارے کی بجھتی ہوئی روشنی
میرے ہونے کا ہے استعارا مجھے
اے خدا کوئی ایسا بھی ہے معجزہ
جو کہ مجھ پر کرے آشکارا مجھے
کوئی سورج نہیں کوئی تارا نہیں
تو نے کس جھٹپٹے میں اتارا مجھے
عکس امروز میں نقش دیروز میں
اک اشارا تجھے اک اشارا مجھے
ہیں ازل تا ابد ٹوٹتے آئینے
آگہی نے کہاں لا کے مارا مجھے
غزل
اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
امجد اسلام امجد