تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی
پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی
یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے
سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں کچھ اتارے بھی
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
کسی کا اپنا محبت میں کچھ نہیں ہوتا
کہ مشترک ہیں یہاں سود بھی خسارے بھی
بگاڑ پر ہے جو تنقید سب بجا لیکن
تمہارے حصے کے جو کام تھے سنوارے بھی
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
پہ جیسے ریل میں دو اجنبی مسافر ہوں
سفر میں ساتھ رہے یوں تو ہم تمہارے بھی
یہی سہی تری مرضی سمجھ نہ پائے ہم
خدا گواہ کہ مبہم تھے کچھ اشارے بھی
یہی تو ایک حوالہ ہے میرے ہونے کا
یہی گراتی ہے مجھ کو یہی اتارے بھی
اسی زمین میں اک دن مجھے بھی سونا ہے
اسی زمیں کی امانت ہیں میرے پیارے بھی
وہ اب جو دیکھ کے پہچانتے نہیں امجدؔ
ہے کل کی بات یہ لگتے تھے کچھ ہمارے بھی
غزل
تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی
امجد اسلام امجد