EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اپنی طرف تو میں بھی نہیں ہوں ابھی تلک
اور اس طرف تمام زمانہ اسی کا ہے

امیر امام




دھوپ میں کون کسے یاد کیا کرتا ہے
پر ترے شہر میں برسات تو ہوتی ہوگی

امیر امام




اس بار راہ عشق کچھ اتنی طویل تھی
اس کے بدن سے ہو کے گزرنا پڑا مجھے

امیر امام




جو شام ہوتی ہے ہر روز ہار جاتا ہوں
میں اپنے جسم کی پرچھائیوں سے لڑتے ہوئے

امیر امام




نہ آبشار نہ صحرا لگا سکے قیمت
ہم اپنی پیاس کو لے کر دہن میں لوٹ آئے

امیر امام




پہلے صحرا سے مجھے لایا سمندر کی طرف
ناؤ پر کاغذ کی پھر مجھ کو سوار اس نے کیا

امیر امام




شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے
تیرگی ہر سمت پھیلا کر ہوا خاموش ہے

امیر امام