شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے
تیرگی ہر سمت پھیلا کر ہوا خاموش ہے
صبح کو پھر شور کے ہمراہ چلنا ہے اسے
رات میں یوں دل دھڑکنے کی صدا خاموش ہے
کیسا سناٹا تھا جس میں لفظ کن کہنے کے بعد
گنبد افلاک میں اب تک خدا خاموش ہے
کچھ بتاتا ہی نہیں گزری ہے کیا پردیس میں
اپنے گھر کو لوٹتا ایک قافلہ خاموش ہے
اٹھ رہی ہے میری مٹی سے صدائے العطش
خالی مشکیزہ لئے اپنا گھٹا خاموش ہے
غزل
شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے
امیر امام