EN हिंदी
شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے | شیح شیری
shahr mein sare charaghon ki ziya KHamosh hai

غزل

شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے

امیر امام

;

شہر میں سارے چراغوں کی ضیا خاموش ہے
تیرگی ہر سمت پھیلا کر ہوا خاموش ہے

صبح کو پھر شور کے ہمراہ چلنا ہے اسے
رات میں یوں دل دھڑکنے کی صدا خاموش ہے

کیسا سناٹا تھا جس میں لفظ کن کہنے کے بعد
گنبد افلاک میں اب تک خدا خاموش ہے

کچھ بتاتا ہی نہیں گزری ہے کیا پردیس میں
اپنے گھر کو لوٹتا ایک قافلہ خاموش ہے

اٹھ رہی ہے میری مٹی سے صدائے العطش
خالی مشکیزہ لئے اپنا گھٹا خاموش ہے