کہ جیسے کوئی مسافر وطن میں لوٹ آئے
ہوئی جو شام تو پھر سے تھکن میں لوٹ آئے
نہ آبشار نہ صحرا لگا سکے قیمت
ہم اپنی پیاس کو لے کر دہن میں لوٹ آئے
سفر طویل بہت تھا کسی کی آنکھوں تک
تو اس کے بعد ہم اپنے بدن میں لوٹ آئے
کبھی گئے تھے ہواؤں کا سامنا کرنے
سبھی چراغ اسی انجمن میں لوٹ آئے
کسی طرح تو فضاؤں کی خامشی ٹوٹے
تو پھر سے شور سلاسل چلن میں لوٹ آئے
امیرؔ امام بتاؤ یہ ماجرا کیا ہے
تمہارے شعر اسی بانکپن میں لوٹ آئے
غزل
کہ جیسے کوئی مسافر وطن میں لوٹ آئے
امیر امام