کس طرح اجڑے سلگتی ہوئی یادوں کے دیے
ہمدمو دل کے قریب آؤ رکو اور سنو
امین راحت چغتائی
میں آئنہ تھا چھپاتا کسی کو کیا راحت
وہ دیکھتا مجھے جب بھی خفا تو ہونا تھا
امین راحت چغتائی
شور کرتا پھر رہا ہوں خشک پتوں کی طرح
کوئی تو پوچھے کہ شہر بے خبر میں کون ہے
امین راحت چغتائی
ذات کے پردے سے باہر آ کے بھی تنہا رہوں
میں اگر ہوں اجنبی تو میرے گھر میں کون ہے
امین راحت چغتائی
خوں شہیدان وطن کا رنگ لا کر ہی رہا
آج یہ جنت نشاں ہندوستاں آزاد ہے
امین سلونی
آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن
لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں
عمیق حنفی
چھوتے ہی آشائیں بکھریں جیسے سپنے ٹوٹ گئے
کس نے اٹکائے تھے یہ کاغذ کے پھول ببول میں
عمیق حنفی

