EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کس طرح اجڑے سلگتی ہوئی یادوں کے دیے
ہمدمو دل کے قریب آؤ رکو اور سنو

امین راحت چغتائی




میں آئنہ تھا چھپاتا کسی کو کیا راحت
وہ دیکھتا مجھے جب بھی خفا تو ہونا تھا

امین راحت چغتائی




شور کرتا پھر رہا ہوں خشک پتوں کی طرح
کوئی تو پوچھے کہ شہر بے خبر میں کون ہے

امین راحت چغتائی




ذات کے پردے سے باہر آ کے بھی تنہا رہوں
میں اگر ہوں اجنبی تو میرے گھر میں کون ہے

امین راحت چغتائی




خوں شہیدان وطن کا رنگ لا کر ہی رہا
آج یہ جنت نشاں ہندوستاں آزاد ہے

امین سلونی




آتا ہوں میں زمانے کی آنکھوں میں رات دن
لیکن خود اپنی نظروں سے اب تک نہاں ہوں میں

عمیق حنفی




چھوتے ہی آشائیں بکھریں جیسے سپنے ٹوٹ گئے
کس نے اٹکائے تھے یہ کاغذ کے پھول ببول میں

عمیق حنفی