EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن
مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے

امیر مینائی




آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

امیر مینائی




عاشق کا بانکپن نہ گیا بعد مرگ بھی
تختے پہ غسل کے جو لٹایا اکڑ گیا

امیر مینائی




آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح
سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا

امیر مینائی




اب آیا دھیان اے جان جہاں اس نا مرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

امیر مینائی




ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو

امیر مینائی




ابھی کمسن ہیں ضدیں بھی ہیں نرالی ان کی
اس پہ مچلے ہیں کہ ہم درد جگر دیکھیں گے

امیر مینائی