آفت تو ہے وہ ناز بھی انداز بھی لیکن
مرتا ہوں میں جس پر وہ ادا اور ہی کچھ ہے
امیر مینائی
آہوں سے سوز عشق مٹایا نہ جائے گا
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
امیر مینائی
عاشق کا بانکپن نہ گیا بعد مرگ بھی
تختے پہ غسل کے جو لٹایا اکڑ گیا
امیر مینائی
آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح
سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا
امیر مینائی
اب آیا دھیان اے جان جہاں اس نا مرادی میں
کفن دینا تمہیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں
امیر مینائی
ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو
امیر مینائی
ابھی کمسن ہیں ضدیں بھی ہیں نرالی ان کی
اس پہ مچلے ہیں کہ ہم درد جگر دیکھیں گے
امیر مینائی