یوں مرے ہونے کو مجھ پر آشکار اس نے کیا
مجھ میں پوشیدہ کسی دریا کو پار اس نے کیا
پہلے صحرا سے مجھے لایا سمندر کی طرف
ناؤ پر کاغذ کی پھر مجھ کو سوار اس نے کیا
میں تھا اک آواز مجھ کو خامشی سے توڑ کر
کرچیوں کو دیر تک میری شمار اس نے کیا
دن چڑھا تو دھوپ کی مجھ کو صلیبیں دے گیا
رات آئی تو مرے بستر کو دار اس نے کیا
جس کو اس نے روشنی سمجھا تھا میری دھوپ تھی
شام ہونے کا مری پھر انتظار اس نے کیا
دیر تک بنتا رہا آنکھوں کے کرگھے پر مجھے
بن گیا جب میں تو مجھ کو تار تار اس نے کیا
غزل
یوں مرے ہونے کو مجھ پر آشکار اس نے کیا
امیر امام