بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہوگی
کم سے کم تجھ میں تری ذات تو ہوتی ہوگی
یہ الگ بات کوئی چاند ابھرتا نہ ہو اب
دل کی بستی میں مگر رات تو ہوتی ہوگی
دھوپ میں کون کسے یاد کیا کرتا ہے
پر ترے شہر میں برسات تو ہوتی ہوگی
ہم تو صحرا میں ہیں تم لوگ سناؤ اپنی
شہر سے روز ملاقات تو ہوتی ہوگی
کچھ بھی ہو جائے مگر تیرے طرفدار ہیں سب
زندگی تجھ میں کوئی بات تو ہوتی ہوگی

غزل
بن کے سایہ ہی سہی سات تو ہوتی ہوگی
امیر امام