کبھی تو بنتے ہوئے اور کبھی بگڑتے ہوئے
یہ کس کے عکس ہیں تنہائیوں میں پڑتے ہوئے
عجیب دشت ہے اس میں نہ کوئی پھول نہ خار
کہاں پہ آ گیا میں تتلیاں پکڑتے ہوئے
مری فضائیں ہیں اب تک غبار آلودہ
بکھر گیا تھا وہ کتنا مجھے جکڑتے ہوئے
جو شام ہوتی ہے ہر روز ہار جاتا ہوں
میں اپنے جسم کی پرچھائیوں سے لڑتے ہوئے
یہ اتنی رات گئے آج شور ہے کیسا
ہوں جسے قبروں پہ پتھر کہیں اکھڑتے ہوئے
غزل
کبھی تو بنتے ہوئے اور کبھی بگڑتے ہوئے
امیر امام