EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زمانہ گزرا ہوا پھر سے یاد آنے لگا
نہ جانے کون مجھے خواب پھر دکھانے لگا

عنبر وسیم الہآبادی




نمود رنگ و بو نے مار ڈالا
اسی کی آرزو نے مار ڈالا

امین حزیں




رستے کی اونچ نیچ سے واقف تو ہوں امیںؔ
ٹھوکر قدم قدم پہ مگر کھا رہا ہوں میں

امین حزیں




تجھ کو تری ہی آنکھ سے دیکھ رہی ہے کائنات
بات یہ راز کی نہیں اپنا خود احترام کر

امین حزیں




یوں دل ہے سر بہ سجدہ کسی کے حضور میں
جیسے کہ غوطہ زن ہو کوئی بحر نور میں

امین حزیں




اب عناصر میں توازن ڈھونڈنے جائیں کہاں
ہم جسے ہم راز سمجھے پاسباں نکلا ترا

امین راحت چغتائی




ہم ایک جاں ہی سہی دل تو اپنے اپنے تھے
کہیں کہیں سے فسانہ جدا تو ہونا تھا

امین راحت چغتائی