یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے
خود کو سمیٹنے میں بکھرنا پڑا مجھے
پھر خواہشوں کو کوئی سرائے نہ مل سکی
اک اور رات خود میں ٹھہرنا پڑا مجھے
محفوظ خامشی کی پناہوں میں تھا مگر
گونجی اک ایسی چیخ کہ ڈرنا پڑا مجھے
اس بار راہ عشق کچھ اتنی طویل تھی
اس کے بدن سے ہو کے گزرنا پڑا مجھے
پوری امیر امام کی تصویر جب ہوئی
اس میں لہو کا رنگ بھی بھرنا پڑا مجھے
غزل
یہ کار زندگی تھا تو کرنا پڑا مجھے
امیر امام