EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

بستیوں والے تو خود اوڑھ کے پتے، سوئے
دل آوارہ تجھے رات سنبھالا کس نے

علی اکبر ناطق




چراغ بانٹنے والوں پہ حیرتیں نہ کرو
یہ آفتاب ہیں، شب کی دعا میں شاد رہیں

علی اکبر ناطق




دھوپ پھیلی تو کہا دیوار نے جھک کر مجھے
مل گلے میرے مسافر، میرے سائے کے حبیب

علی اکبر ناطق




فاختائیں بولتی ہیں بجروں کے دیس میں
تو بھی سن لے آسماں یہ گیت میرے نام کا

علی اکبر ناطق




غبار شہر میں اسے نہ ڈھونڈ جو خزاں کی شب
ہوا کی راہ سے ملا، ہوا کی راہ پر گیا

علی اکبر ناطق




حجاب آ گیا تھا مجھ کو دل کے اضطراب پر
یہی سبب ہے تیرے در پہ لوٹ کر نہ آ سکا

علی اکبر ناطق




اتنا آساں نہیں پانی سے شبیہیں دھونا
خود بھی روئے گا مصور یہ قیامت کر کے

علی اکبر ناطق