کم ظرف احتیاط کی منزل سے آئے ہیں
ہم زندگی کے جادۂ مشکل سے آئے ہیں
گرداب محو رقص ہے طوفان محو جوش
کچھ لوگ شوق موج میں ساحل سے آئے ہیں
یہ وضع ضبط شوق کہ دل جل بجھا مگر
شکوے زباں پہ آج بھی مشکل سے آئے ہیں
آنکھوں کا سوز دل کی کسک تو نئیں ملی
مانا کہ آپ بھی اسی محفل سے آئے ہیں
یہ قشقۂ خلوص ہے زخم جبیں نہیں
ہر چند ہم بھی کوچۂ قاتل سے آئے ہیں
دل کا لہو نگاہ سے ٹپکا ہے بارہا
ہم راہ غم میں ایسی بھی منزل سے آئے ہیں
دل اک اداس صبح نظر اک اداس شام
کیسے کہیں کہ دوست کی محفل سے آئے ہیں
چھیڑا تھا نوک خار نے لیکن گماں ہوا
تازہ پیام پردۂ محمل سے آئے ہیں
ہاں گائے جا مغنی بزم طرب کہ آج
نغمے تری زباں پہ مرے دل سے آئے ہیں
غزل
کم ظرف احتیاط کی منزل سے آئے ہیں
علی جواد زیدی