جنوں سے راہ خرد میں بھی کام لینا تھا
ہر ایک خار سے اذن خرام لینا تھا
فراز دار پہ دامن کسی کا تھام لیا
جنون شوق کو بھی انتقام لینا تھا
ہزار بار نتائج سے ہو کے بے پروا
اسی کا نام لیا جس کا نام لینا تھا
علاج تشنہ لبی سہل تھا مگر ساقی
جو دست غیر میں ہے کب وہ جام لینا تھا
جنوں کی راہ میں تدبیر سرخوشی کے لیے
بس ایک ولولۂ تیزگام لینا تھا
شکستہ لاکھ تھی کشتی ہزار تھا طوفاں
خیال میں کوئی دامن تو تھام لینا تھا
نسیم ایک روش تک پہنچ کے تھم سی گئی
کہ ناشگفتہ کلی کا پیام لینا تھا
شب فراق میں بھی کچھ دیے چمکنے لگیں
نگاہ شوق سے اتنا تو کام لینا تھا
ہزار بار تری بزم میں ہوا محسوس
لیا جو غیر نے مجھ کو وہ جام لینا تھا
میں ایک جرعۂ مستی پہ صلح کیوں کرتا
مجھے تو جام میں ماہ تمام لینا تھا
غضب ہوا کہ ان آنکھوں میں اشک بھر آئے
نگاہ یاس سے کچھ اور کام لینا تھا
کسی نے آگ لگائی ہو کوئی مجرم ہو
ہمیں تو اپنے ہی سر اتہام لینا تھا
نگاہ شوخ یہی فتح اور کچھ ہوتی
جو گر رہے تھے انہیں بڑھ کے تھام لینا تھا
یہ بزم خاص کا عیش دو روزہ کیا ہوگا
غم عوام سے عیش دوام لینا تھا

غزل
جنوں سے راہ خرد میں بھی کام لینا تھا
علی جواد زیدی