دبی آواز میں کرتی تھی کل شکوے زمیں مجھ سے
کہ ظلم و جور کا یہ بوجھ اٹھ سکتا نہیں مجھ سے
اگر یہ کشمکش باقی رہی جہل و تمدن کی
زمانہ چھین لے گا دولت علم و یقیں مجھ سے
تمہیں سے کیا چھپانا ہے تمہاری ہی تو باتیں ہیں
جو کہتی ہے تمنا کی نگاہ واپسیں مجھ سے
نگاہیں چار ہوتے ہی بھلا کیا حشر اٹھ جاتا
یقیناً اس سے پہلے بھی ملے ہیں وہ کہیں مجھ سے
دکھا دی میں نے وہ منزل جو ان دونوں کے آگے ہے
پریشاں ہیں کہ آخر اب کہیں کیا کفر و دیں مجھ سے
یہ مانا ذرہ آوارۂ دشت وفا ہوں میں
نبھانا ہی پڑے گا تجھ کو دنیائے حسیں مجھ سے
سر منزل پہنچ کر آج یہ محسوس ہوتا ہے
کہ لاکھوں لغزشیں ہر گام پر ہوتی رہیں مجھ سے
ادھر ساری تمناؤں کا مرکز آستاں ان کا
ادھر برہم تمنا پر مری سرکش جبیں مجھ سے

غزل
دبی آواز میں کرتی تھی کل شکوے زمیں مجھ سے
علی جواد زیدی