اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا
ایک طوفاں تھا کہ برسوں حسرت ساحل میں تھا
رفتہ رفتہ ہر تماشا آنسوؤں میں ڈھل گیا
جانے کیا آنکھوں نے دیکھا اور کیا منزل میں تھا
داستان غم سے لاکھوں داستانیں بن گئی
پھر بھی وہ اک راز سر بستہ رہا جو دل میں تھا
چشم ساقی کے علاوہ جام خالی کے سوا
کون اپنا آشنا اغیار کی محفل میں تھا
میرے ارمانوں کا مرکز میرے دردوں کا علاج
ٹمٹماتا سا دیا اک گوشۂ منزل میں تھا
گفتگو کے ختم ہو جانے پر آیا یہ خیال
جو زباں تک آ نہیں پایا وہی تو دل میں تھا
مٹ گئیں امروز و فردا کی ہزاروں الجھنیں
جو سکوں طوفاں میں پایا ہے وہ کب ساحل میں تھا
غزل
اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا
علی جواد زیدی