طے کر چکے یہ زندگی جاوداں سے ہم
آگے بڑھیں گے اور اٹھے ہیں جہاں سے ہم
کس کو صدا دیں کس سے کہیں ساتھ لے چلو
پیچھے رہے غبار رہ کارواں سے ہم
دل میں جو درد ہے وہ نگاہوں سے ہے عیاں
یہ بات اور ہے نہ کہیں کچھ زباں سے ہم
چونکا دیا قفس نے ہمیں گہری نیند سے
وابستہ ہو چلے تھے بہت آشیاں سے ہم
گر آ بھی جائے میری جبیں تک وہ آستاں
لائیں گے سجدہ ریزی کی عادت کہاں سے ہم
فیض جنوں سے فرصت فریاد ہی نہ تھی
ناآشنا ہی رہ گئے طرز فغاں سے ہم
دیکھی ہیں ہم نے ان کی پشیماں نگاہیاں
کہنا ہو لاکھ پھر بھی کہیں کس زباں سے ہم
غزل
طے کر چکے یہ زندگی جاوداں سے ہم
علی جواد زیدی