ترے دیار میں کوئی غم آشنا تو نہیں
مگر وہاں کے سوا اور راستا تو نہیں
سمٹ کے آ گئی دنیا قریب مے خانہ
کوئی بتاؤ یہی خانۂ خدا تو نہیں
لبوں پر آج تبسم کی موج مچلی ہے
کوئی مجھے کسی گوشے سے دیکھتا تو نہیں
بنا لیں راہ اسی خار زار سے ہو کر
جنون شوق کا یہ فیصلہ برا تو نہیں
سبب ہو کچھ بھی ترے انفعال کا لیکن
مری شکست سے پہلے کبھی ہوا تو نہیں
نہ ریگ گرم نہ کانٹے نہ راہزن نہ غنیم
یہ راستہ کہیں غیروں کا راستہ تو نہیں
دیار سجدہ میں تقلید کا رواج بھی ہے
جہاں جھکی ہے جبیں ان کا نقش پا تو نہیں
خیال ساحل و فکر تباہ کاری وج
یہ سب ہے پھر بھی تمنائے ناخدا تو نہیں
غزل
ترے دیار میں کوئی غم آشنا تو نہیں
علی جواد زیدی