عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے
زندگی اک حسین سنگم ہے
جام میں ہے جو مشعل گل رنگ
تیری آنکھوں کا عکس مبہم ہے
اے غم دہر کے گرفتارو
عیش بھی سرنوشت آدم ہے
نوک مژگاں پہ یاد کا آنسو
موسم گل کی سرد شبنم ہے
درد دل میں کمی ہوئی ہے کہیں
تم نے پوچھا تو کہہ دیا کم ہے
مٹتی جاتی ہے بنتی جاتی ہے
زندگی کا عجیب عالم ہے
اک ذرا مسکرا کے بھی دیکھیں
غم تو یہ روز روز کا غم ہے
پوچھنے والے شکریہ تیرا
درد تو اب بھی ہے مگر کم ہے
کہہ رہا تھا میں اپنا افسانہ
کیوں ترا دامن مژہ نم ہے
غم کی تاریکیوں میں اے زیدیؔ
روشنی وہ بھی ہے جو مدھم ہے
غزل
عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے
علی جواد زیدی