برسر باد ہوا اپنا ٹھکانا سر راہ
کام آیا مرا آواز لگانا سر راہ
دوستو فرط جنوں راہ بدلتا ہے مری
کس نے چاہا تھا تمہیں چھوڑ کے جانا سر راہ
دل ملاقات کا خواہاں ہو تو خاک اڑتی ہے
بچ کے چلتا ہوں تو ملتا ہے زمانا سر راہ
یہ جو مٹی تن باقی کی لیے پھرتا ہوں
چھوڑ جاؤں گا کہیں یہ بھی خزانا سر راہ
تم کسی سنگ پہ اب سر کو ٹکا کر سو جاؤ
کون سنتا ہے شب غم کا فسانا سر راہ
رہ دنیا میں ٹھہرنا تو نہیں تھا دل کو
مل گیا ہوگا کوئی خواب پرانا سر راہ
غزل
برسر باد ہوا اپنا ٹھکانا سر راہ
علی افتخار جعفری