نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
چونکے ہیں ہم اب سرحد عصیاں سے گزر کے
آنکھوں میں لیے جلوۂ نیرنگ تماشا
آئی ہے خزاں جشن بہاراں سے گزر کے
یادوں کے جواں قافلے آتے ہی رہیں گے
سرما کے اسی برگ پرافشاں سے گزر کے
کانٹوں کو بھی اب باد صبا چھیڑ رہی ہے
پھولوں کے حسیں چاک گریباں سے گزر کے
وحشت کی نئی راہ گزر ڈھونڈھ رہے ہیں
ہم اہل جنوں دشت و بیاباں سے گزر کے
بن جائے گا تارا کسی مایوس خلا میں
یہ اشک سحر گوشۂ داماں سے گزر کے
آوارگی فکر کدھر لے کے چلی ہے
سر منزل آزادئ انساں سے گزر کے
پائی ہے نگاہوں نے تری بزم تمنا
راتوں کو چناروں کے چراغاں سے گزر کے
اک گردش چشم کرم اک موج نظارہ
کل شب کو ملی گردش دوراں سے گزر کے
ملنے کو تو مل جائے مگر لے گا بھلا کون
ساحل کا سکوں شورش طوفاں سے گزر کے
اک نشتر غم اور سہی اے غم منزل
آ دیکھ تو اک روز رگ جاں سے گزر کے
اب درد میں وہ کیفیت درد نہیں ہے
آیا ہوں جو اس بزم گل افشاں سے گزر کے
غزل
نیند آ گئی تھی منزل عرفاں سے گزر کے
علی جواد زیدی