EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

میں بھری سڑکوں پہ بھی بے چاپ چلنے لگ گیا
گھر میں سوئے لوگ میرے ذہن پر یوں چھا گئے

علی اکبر عباس




میں کھوئے جاتا ہوں تنہائیوں کی وسعت میں
در خیال در لا مکاں ہے یا کچھ اور

علی اکبر عباس




اسی پیڑ کے نیچے دفن بھی ہونا ہوگا
جس کی جڑ پر میں نے اپنا نام لکھا ہے

علی اکبر عباس




ذرا ہٹے تو وہ محور سے ٹوٹ کر ہی رہے
ہوا نے نوچا انہیں یوں کہ بس بکھر ہی رہے

علی اکبر عباس




آنکھیں تھیں ویران نظر کیسے آتا
دل تو تھا بیمار سفر کیسے کٹتا

علی اکبر منصور




آدھے پیڑ پہ سبز پرندے آدھا پیڑ آسیبی ہے
کیسے کھلے یہ رام کہانی کون سا حصہ میرا ہے

علی اکبر ناطق




آسماں کے روزنوں سے لوٹ آتا تھا کبھی
وہ کبوتر اک حویلی کے چھجوں میں کھو گیا

علی اکبر ناطق