میں بھری سڑکوں پہ بھی بے چاپ چلنے لگ گیا
گھر میں سوئے لوگ میرے ذہن پر یوں چھا گئے
علی اکبر عباس
میں کھوئے جاتا ہوں تنہائیوں کی وسعت میں
در خیال در لا مکاں ہے یا کچھ اور
علی اکبر عباس
اسی پیڑ کے نیچے دفن بھی ہونا ہوگا
جس کی جڑ پر میں نے اپنا نام لکھا ہے
علی اکبر عباس
ذرا ہٹے تو وہ محور سے ٹوٹ کر ہی رہے
ہوا نے نوچا انہیں یوں کہ بس بکھر ہی رہے
علی اکبر عباس
آنکھیں تھیں ویران نظر کیسے آتا
دل تو تھا بیمار سفر کیسے کٹتا
علی اکبر منصور
آدھے پیڑ پہ سبز پرندے آدھا پیڑ آسیبی ہے
کیسے کھلے یہ رام کہانی کون سا حصہ میرا ہے
علی اکبر ناطق
آسماں کے روزنوں سے لوٹ آتا تھا کبھی
وہ کبوتر اک حویلی کے چھجوں میں کھو گیا
علی اکبر ناطق