مستی گام بھی تھی غفلت انجام کے ساتھ
دو گھڑی کھیل لیے گردش ایام کے ساتھ
تشنہ لب رہنے پہ بھی ساکھ تو تھی شان تو تھی
وضع رندانہ گئی اک طلب جام کے ساتھ
جب سے ہنگام سفر اشکوں کے تارے چمکے
تلخیاں ہو گئیں وابستہ ہر اک شام کے ساتھ
اب نہ وہ شورش رفتار نہ وہ جوش جنوں
ہم کہاں پھنس گئے یاران سبک گام کے ساتھ
اڑ چکی ہیں ستم آراؤں کی نیندیں اکثر
آپ سنئے کبھی افسانہ یہ آرام کے ساتھ
اس میں ساقی کا بھی درپردہ اشارہ تو نہیں
آج کچھ رند بھی تھے واعظ بدنام کے ساتھ
غیر کی طرح ملے اہل حرم اے زیدیؔ
مجھ کو یک گو نہ عقیدت جو تھی اصنام کے ساتھ
غزل
مستی گام بھی تھی غفلت انجام کے ساتھ
علی جواد زیدی