گھنٹیاں بجنے سے پہلے شام ہونے کے قریب
چھوڑ جاتا میں ترا گاؤں مگر میرے نصیب
دھوپ پھیلی تو کہا دیوار نے جھک کر مجھے
مل گلے میرے مسافر، میرے سائے کے حبیب
لوٹ آئے ہیں شفق سے لوگ بے نیل مرام
رنگ پلکوں سے اٹھا لائے مگر تیرے نجیب
میں وہ پردیسی نہیں جس کا نہ ہو پرساں کوئی
سبز باغوں کے پرندے میرے وطنوں کے نقیب
غزل
گھنٹیاں بجنے سے پہلے شام ہونے کے قریب
علی اکبر ناطق