EN हिंदी
قید خانے کی ہوا میں شور ہے آلام کا | شیح شیری
qaid-KHane ki hawa mein shor hai aalam ka

غزل

قید خانے کی ہوا میں شور ہے آلام کا

علی اکبر ناطق

;

قید خانے کی ہوا میں شور ہے آلام کا
بھید کھلتا کیوں نہیں اے دل ترے آرام کا

فاختائیں بولتی ہیں بجروں کے دیس میں
تو بھی سن لے آسماں یہ گیت میرے نام کا

ٹھنڈے پانی کے گگن میں ساتویں کا چاند ہے
یا گرا ہے برف میں کنگرا تمہارے بام کا

کوکتا پھرتا ہے کوئی دھوپ کی گلیوں میں شخص
سن لیا ہے اس نے شاید حال میری شام کا