حریم دل، کہ سر بسر جو روشنی سے بھر گیا
کسے خبر، میں کن دیوں کی راہ سے گزر گیا
غبار شہر میں اسے نہ ڈھونڈ جو خزاں کی شب
ہوا کی راہ سے ملا، ہوا کی راہ پر گیا
ترے نواح میں رہا مگر میان دین و دل
گجر بجا تو جی اٹھا، سنی اذاں تو مر گیا
سفید پتھروں کے گھر، گھروں میں تیرگی کے غم
ہزار غم کا ایک یہ کہ تو بھی بے خبر گیا
نگر ہیں آفتاب کے، برہنہ گنبدوں کے سر
سروں پہ نور کے کلس، میں نور میں اتر گیا
غزل
حریم دل، کہ سر بسر جو روشنی سے بھر گیا
علی اکبر ناطق