EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کناروں سے مجھے اے ناخداؤ دور ہی رکھو
وہاں لے کر چلو طوفاں جہاں سے اٹھنے والا ہے

علی احمد جلیلی




کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے
جب سنور جائے چمن آگ لگا دی جائے

علی احمد جلیلی




لائی ہے کس مقام پہ یہ زندگی مجھے
محسوس ہو رہی ہے خود اپنی کمی مجھے

علی احمد جلیلی




نشیمن ہی کے لٹ جانے کا غم ہوتا تو کیا غم تھا
یہاں تو بیچنے والے نے گلشن بیچ ڈالا ہے

علی احمد جلیلی




پھرتا ہوں اپنا نقش قدم ڈھونڈتا ہوا
لے کر چراغ ہاتھ میں وہ بھی بجھا ہوا

علی احمد جلیلی




روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے
شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے

علی احمد جلیلی




اس شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں
جس کی شاخوں پر کوئی پتا نہیں

علی احمد جلیلی