کناروں سے مجھے اے ناخداؤ دور ہی رکھو
وہاں لے کر چلو طوفاں جہاں سے اٹھنے والا ہے
علی احمد جلیلی
کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے
جب سنور جائے چمن آگ لگا دی جائے
علی احمد جلیلی
لائی ہے کس مقام پہ یہ زندگی مجھے
محسوس ہو رہی ہے خود اپنی کمی مجھے
علی احمد جلیلی
نشیمن ہی کے لٹ جانے کا غم ہوتا تو کیا غم تھا
یہاں تو بیچنے والے نے گلشن بیچ ڈالا ہے
علی احمد جلیلی
پھرتا ہوں اپنا نقش قدم ڈھونڈتا ہوا
لے کر چراغ ہاتھ میں وہ بھی بجھا ہوا
علی احمد جلیلی
روکے سے کہیں حادثۂ وقت رکا ہے
شعلوں سے بچا شہر تو شبنم سے جلا ہے
علی احمد جلیلی
اس شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں
جس کی شاخوں پر کوئی پتا نہیں
علی احمد جلیلی