EN हिंदी
ہوا کے تخت پر اگر تمام عمر تو رہا | شیح شیری
hawa ke taKHt par agar tamam umr tu raha

غزل

ہوا کے تخت پر اگر تمام عمر تو رہا

علی اکبر ناطق

;

ہوا کے تخت پر اگر تمام عمر تو رہا
مجھے خبر نہ ہو سکی پہ ساتھ ساتھ میں بھی تھا

چمکتے نور کے دنوں میں تیرے آستاں سے دور
وہ میں کہ آفتاب کی سفید شاخ پر کھلا

حجاب آ گیا تھا مجھ کو دل کے اضطراب پر
یہی سبب ہے تیرے در پہ لوٹ کر نہ آ سکا

وہ کس مکاں کی دھوپ تھی، گلی گلی میں بھر گئی
وہ کون سبزہ رخ تھا جو کہ موم سا پگھل گیا

کبھی تو چل کے دیکھو سائے پیپلوں کے دیس کے
جہاں لڑکپنا ہمارے ہاتھ سے جدا ہوا