باد صحرا کو رہ شہر پہ ڈالا کس نے
تار وحشت کو گریباں سے نکالا کس نے
مختصر بات تھی، پھیلی کیوں صبا کی مانند
درد مندوں کا فسانہ تھا، اچھالا کس نے
بستیوں والے تو خود اوڑھ کے پتے، سوئے
دل آوارہ تجھے رات سنبھالا کس نے
آگ پھولوں کی طلب میں تھی، ہواؤں پہ رکی
نذر جاں کس کی ہوئی، راہ سے ٹالا کس نے
کانچ کی راہ پہ اک رسم سفر تھی مجھ سے
بعد میرے بنا ہر گام پہ جالا کس نے
غزل
باد صحرا کو رہ شہر پہ ڈالا کس نے
علی اکبر ناطق