دل کے داغ میں سیسہ ہے اور زخم جگر میں تانبا ہے
اتنا بھاری سینہ لے کر شخص آوارہ پھرتا ہے
کانچ کے ریزے تیز ہوا میں باؤلے اڑتے پھرتے ہیں
ننگے بدن کی چاندنی سے پھر تارا تارا گرتا ہے
آدھے پیڑ پہ سبز پرندے آدھا پیڑ آسیبی ہے
کیسے کھلے یہ رام کہانی کون سا حصہ میرا ہے
کالے دیوتا مٹھی بھر بھر سونے گھروں میں پھینکتے ہیں
کہر زدہ بستی کے چوک میں راکھ کا اونچا ٹیلہ ہے
سرد شبوں کا پوچھنے والو ان راتوں کے تارے دور
دھندلے چاند کی نبضیں گونگی آگ کا چہرہ نیلا ہے
پیپلوں والی گلیاں اجڑی ڈھیر ہیں پیلے پتوں کے
سامنے والی سرخ حویلی میں بھوتوں کا ڈیرا ہے
غزل
دل کے داغ میں سیسہ ہے اور زخم جگر میں تانبا ہے
علی اکبر ناطق