پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے
ہونٹوں پر آتے ہر قطرہ سوکھ رہا ہے
اندھے ہو کر بادل بھاگے پھرتے ہیں
گاتے گاتے ایک پرندہ آگ ہوا ہے
پھول اور پھل تو تازہ کونپل پر آتے ہیں
پیلا پتہ اس وحشت میں ٹوٹ رہا ہے
گردش گردش چلنے سے ہی کٹ پائے گا
چاروں جانب ایک سفر کا جال بچھا ہے
اسی پیڑ کے نیچے دفن بھی ہونا ہوگا
جس کی جڑ پر میں نے اپنا نام لکھا ہے
غزل
پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے
علی اکبر عباس