ہجر بنا آزار سفر کیسے کٹتا
عشق کے روگ ہزار سفر کیسے کٹتا
دھوپ کا بوجھ سروں پر آخر آن گرا
ختم ہوئے اشجار سفر کیسے کٹتا
کیا بتلائیں اپنی خالی جھولی میں
سانسیں تھیں دو چار سفر کیسے کٹتا
دیکھتے دیکھتے نظروں سے معدوم ہوئے
رستوں کے آثار سفر کیسے کٹتا
پیچھے بے حس دن کے خوف تھا اور آگے
رات کی تھی دیوار سفر کیسے کٹتا
اپنا بوجھ اٹھا کر اپنے کاندھوں پر
چلنا تھا دشوار سفر کیسے کٹتا
آنکھیں تھیں ویران نظر کیسے آتا
دل تو تھا بیمار سفر کیسے کٹتا
ننگے پاؤں دھوپ میں چلتے رہنے کی
کوشش تھی بے کار سفر کیسے کٹتا
کچھ تو جزیرے بینائی سے اوجھل تھے
ناؤ تھی بے پتوار سفر کیسے کٹتا
اک دوجے کے سنگ اڑی تھیں سب کونجیں
ٹوٹ گئی پھر ڈار سفر کیسے کٹتا
غزل
ہجر بنا آزار سفر کیسے کٹتا
علی اکبر منصور