ذرا ہٹے تو وہ محور سے ٹوٹ کر ہی رہے
ہوا نے نوچا انہیں یوں کہ بس بکھر ہی رہے
ہیں بے نشاں جو اڑے تھے بگولہ زد ہو کر
زمیں پہ لیٹنے والے زمین پر ہی رہے
بہار جھاڑیوں پر ٹوٹ ٹوٹ کر برسی
دعائیں مانگتے اشجار بے ثمر ہی رہے
خوشا یہ سایہ و خوشبو کہ طائر خوش رنگ
نہ پھر یہ وقت رہے اور نہ یہ شجر ہی رہے
بنائیں ایسا مکاں اب کہ چاند اور سورج
جدھر بھی جائیں مگر روشنی ادھر ہی رہے
غزل
ذرا ہٹے تو وہ محور سے ٹوٹ کر ہی رہے
علی اکبر عباس