غبار نور ہے یا کہکشاں ہے یا کچھ اور
یہ میرے چاروں طرف آسماں ہے یا کچھ اور
جو دیکھا عرش تصور سے بارہا سوچا
یہ کائنات بھی عکس رواں ہے یا کچھ اور
میں کھوئے جاتا ہوں تنہائیوں کی وسعت میں
در خیال در لا مکاں ہے یا کچھ اور
فراق عمر کی حد کیوں لگائی ہے اس نے
مرا وجود ہی اس کو گراں ہے یا کچھ اور
ازل سے تا بہ ابد جست ایک ساعت کی
یہی بس عرصۂ کار جہاں ہے یا کچھ اور
غزل
غبار نور ہے یا کہکشاں ہے یا کچھ اور
علی اکبر عباس