سارا دن بے کار بیٹھے شام کو گھر آ گئے
خواب میں چلنے لگے دیوار سے ٹکرا گئے
میں بھری سڑکوں پہ بھی بے چاپ چلنے لگ گیا
گھر میں سوئے لوگ میرے ذہن پر یوں چھا گئے
میرا بیٹا میرے دشمن کی ہی تصویریں بنائے
میرے ابا اس کی کاپی دیکھ کر گھبرا گئے
جب بھی سورج ڈوبتے دیکھا میں خوش ہونے لگا
پر کئی منحوس چمگادڑ مجھے لرزا گئے
آسماں کی سمت دیکھا بادلوں کے واسطے
دیکھتے ہی دیکھتے چیلوں کے دل منڈلا گئے
غزل
سارا دن بے کار بیٹھے شام کو گھر آ گئے
علی اکبر عباس