غنچہ غنچہ ہنس رہا تھا، پتی پتی رو گیا
پھول والوں کی گلی میں گل تماشا ہو گیا
ہم نے دیکھیں دھوپ کی سڑکوں پہ جس کی وحشتیں
رات کے سینے سے لگ کر آخرش وہ سو گیا
آسماں کے روزنوں سے لوٹ آتا تھا کبھی
وہ کبوتر اک حویلی کے چھجوں میں کھو گیا
اک گلی کے نور نے تاریک کتنے گھر کیے
وہ نہ لوٹا شخص بینا آنکھیں لے کر جو گیا
غزل
غنچہ غنچہ ہنس رہا تھا، پتی پتی رو گیا
علی اکبر ناطق