آنکھوں میں خواب تازہ ہے دل میں نیا خیال بھی
اور جو مہرباں رہے گردش ماہ و سال بھی
ملنے کی اہتمام تک ہم ترے منتظر رہے
اب تو نہیں رہا مگر ملنے کا احتمال بھی
وقت کہاں رکا بھلا پر یہ کسے گمان تھا
عمر کی زد میں آئے گا تجھ سا پری جمال بھی
اس نے دیئے تھے پھول جو اب اسے کیا دکھائیے
رکھتا نہیں ہے جبکہ دل خواہش اندمال بھی
خواب جمال تازہ تر آیا تھا چور کی طرح
کھرچ کے دل سے لے گیا آپ کے خد و خال بھی
لاؤ تو میں ہی ٹانک دوں تارے کو آسمان پر
میرے ہی ہاتھ سے اگر ہونا ہے یہ کمال بھی

غزل
آنکھوں میں خواب تازہ ہے دل میں نیا خیال بھی
اکرم محمود