کھلی اور بند آنکھوں سے اسے تکتا رہا میں بھی
تری دنیا کے پیچھے بھاگتا پھرتا رہا میں بھی
مری آواز پچھلی رات تجھ تک کیسے آ پاتی
کسی گہرے کنویں میں رات بھر سوتا رہا میں بھی
بہ ظاہر دیکھتی آنکھیں بہ ظاہر جاگتی روحیں
بہ ظاہر ان سبھوں کے ساتھ ہی جیتا رہا میں بھی
میں ہوں اس کارساز بے کساں کی دسترس میں یوں
وہ جس سانچے میں بھی ڈھالا کیا ڈھلتا رہا میں بھی
بدن ملبوس میں شعلہ سا اک لرزاں قرین جاں
دل خاشاک بھی شعلہ ہوا جلتا رہا میں بھی
ہے جس راہ یقیں پر گامزن پائے خرد ہر دم
اسی راہ گماں پر مدتوں چلتا رہا میں بھی
غزل
کھلی اور بند آنکھوں سے اسے تکتا رہا میں بھی
اکرم نقاش