جو ذہن و دل کے زہریلے بہت ہیں
وہی باتوں کے بھی میٹھے بہت ہیں
چلو اہل جنوں کے ساتھ ہو لیں
یہاں اہل خرد سستے بہت ہیں
مری بے چہرگی پر ہنسنے والو
تمہارے آئنے دھندلے بہت ہیں
ذرا یادوں کے ہی پتھر اچھالو
نواح جاں میں سناٹے بہت ہیں
تری بالا قدی بدنام ہوگی
یہاں کے بام و در نیچے بہت ہیں
شجر بے سایہ ہیں سورج برہنہ
مگر ہم عزم کے پکے بہت ہیں
کرو اب فتح کا اعلان اخترؔ
سروں سے سرخ رو نیزے بہت ہیں
غزل
جو ذہن و دل کے زہریلے بہت ہیں
اختر شاہجہانپوری