راہ وفا میں کوئی ہمیں جانتا نہ تھا
جب تک دیا ہمارے لہو کا جلا نہ تھا
یہ معجزہ ہمارے ہی طرز بیاں کا تھا
اس نے وہ سن لیا تھا جو ہم نے کہا نہ تھا
جب آشیانے جل گئے تب ہم نوا ہوئے
گلشن میں اس سے پہلے کوئی بولتا نہ تھا
تو خود ہی قطرہ قطرہ پگھلتا تھا روز و شب
شامل ترے زوال میں دست دعا نہ تھا
شدت کی دھوپ میں بھی نہ پگھلا مرا وجود
مجھ پر تمہاری زلفوں کا جب شامیانہ تھا
جگنو تھا کہکشاں تھا ستارہ تھا یا گہر
آنسو کسی کی آنکھ سے جب تک گرا نہ تھا
اخترؔ گناہ کرنے سے پھر روکتا تھا کون
میں کیسے مان لوں کہ وہاں پر خدا نہ تھا
غزل
راہ وفا میں کوئی ہمیں جانتا نہ تھا
اختر شاہجہانپوری