سمندر سب کے سب پایاب سے ہیں
کناروں پر مگر گرداب سے ہیں
ترے خط میں جو اشکوں کے نشاں تھے
وہی اب کرمک شب تاب سے ہیں
چہک اٹھتا ہے ساز زندگانی
ترے الفاظ بھی مضراب سے ہیں
دلوں میں کرب بڑھتا جا رہا ہے
مگر چہرے ابھی شاداب سے ہیں
ہمارے زخم روشن ہو رہے ہیں
مسیحا اس لیے بیتاب سے ہیں
وہ جگنو ہو ستارہ ہو کہ آنسو
اندھیرے میں سبھی مہتاب سے ہیں
کبھی نشتر کبھی مرہم سمجھنا
مرے اشعار بھی احباب سے ہیں
خوشی تیرا مقدر ہوگی اخترؔ
یہ امکاں اب خیال و خواب سے ہیں
غزل
سمندر سب کے سب پایاب سے ہیں
اختر شاہجہانپوری