لمحہ لمحہ یہی سوچوں یہی دیکھا چاہوں
تیری آنکھوں میں تو بس اپنا ہی چہرہ چاہوں
یہ بھی کیا بات کہ میں تیری انا کی خاطر
تیری قامت سے زیادہ ترا سایا چاہوں
مجھ سے الفت بھی نہیں ہے تو نہ جانے پھر کیوں
تیری محفل میں فقط اپنا ہی چرچا چاہوں
وہ تو گونگا ہے مگر مجھ کو یہ ضد ہے کیسی
اپنی تعریف میں کچھ اس سے بھی سننا چاہوں
ساتھ دینے سے ہوئے جاتے ہیں قاصر الفاظ
جانے کیا کیا میں تری شان میں لکھنا چاہوں
میں تو اک ایسا مسافر ہوں جو تھکتا ہی نہیں
اپنی منزل سے بھی آگے کوئی جادہ چاہوں
دل سے بادل کبھی اٹھتے ہی نہیں ہیں اخترؔ
کس لیے آنکھوں سے بہتا ہوا دریا چاہوں
غزل
لمحہ لمحہ یہی سوچوں یہی دیکھا چاہوں
اختر شاہجہانپوری