EN हिंदी
لفظ لکھنا ہے تو پھر کاغذ کی نیت سے نہ ڈر | شیح شیری
lafz likhna hai to phir kaghaz ki niyyat se na Dar

غزل

لفظ لکھنا ہے تو پھر کاغذ کی نیت سے نہ ڈر

اختر شیخ

;

لفظ لکھنا ہے تو پھر کاغذ کی نیت سے نہ ڈر
اس قدر اظہار کی بے معنویت سے نہ ڈر

دیکھ! گلشن میں ابھی شاخ تحیر بانجھ ہے
پھول ہونا ہے تو کھلنے کی اذیت سے نہ ڈر

ہم رہ موسم سفر کی بستیوں کے درمیاں
نقش بر دیوار بارش کی وصیت سے نہ ڈر

ایک ہلکی سی صدا تو بن زباں رکھتا ہے تو
چار جانب خامشی کی اکثریت سے نہ ڈر

آسماں اک دن پتنگا ہو سر شمع زمیں
موم کر اپنے لہو کو جل اذیت سے نہ ڈر