کس جرم آرزو کی سزا ہے یہ زندگی
ایسا تو اے خدا میں گنہ گار بھی نہیں
اختر سعید خان
کس کو فرصت تھی کہ اخترؔ دیکھتا میری طرف
میں جہاں جس بزم میں جب تک رہا تنہا رہا
اختر سعید خان
کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں
مرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں
اختر سعید خان
میں سفر میں ہوں مگر سمت سفر کوئی نہیں
کیا میں خود اپنا ہی نقش کف پا ہوں کیا ہوں
اختر سعید خان
مرا فسانہ ہر اک دل کا ماجرا تو نہ تھا
سنا بھی ہوگا کسی نے تو کیا سنا ہوگا
اختر سعید خان
مجھے اب دیکھتی ہے زندگی یوں بے نیازانہ
کہ جیسے پوچھتی ہو کون ہو تم جستجو کیا ہے
اختر سعید خان
ناامیدی حرف تہمت ہی سہی کیا کیجئے
تم قریب آتے نہیں ہو اور خدا ملتا نہیں
اختر سعید خان